واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت محمدمظفرعلی خاں عارف

رحمتہ اللہ علیہ

حضرت محمدمظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   بھارت کےمشہورشہرہوشیارپورمیں پیداہوئے۔ آپ نےابتدائی تعلیم اپنےوالد حضرت محمدمرادعلی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   سےحاصل کی۔ اس کےبعدآپ کےوالدنےآپ کوسکول داخل کروادیا۔ تقسیم ہندسےبہت پہلےآپ اپنےوالدین کےہمراہ پاکستان میں منتقل ہوگئے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پاکستان منتقل ہونےکےبعدآپ نےاپنی تعلیم مکمل کی اس کےبعد طبیہ کالج لاہورمیں داخلہ لےلیاجہاں پرآپ نےحکمت کی تعلیم حاصل کی۔ اس کےبعدآپ نےہومیوپیتھک کاکورس بھی مکمل کیااورپھرواپس جاکر پریکٹس شروع کردی۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حضرت محمدمظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو دوطریقوں سےباطنی نسبت حاصل تھی،ایک نسبت  ان کواپنےوالد حضرت محمدمرادعلی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   سے،اوردوسری اپنےناناحضرت پیربخش   رحمتہ  اللہ  علیہ  سےتھی۔

حضرت محمدمرادعلی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   اپنےآخری وقت میں آپ کواپنےسینےپرلٹالیااوراپنی زبان مبارک آپ کے منہ میں رکھ دی جس سےآپ کاساراباطن روشن ہوگیااورسارےاسرارورموزآپ پرکھل گئے اورآپ حضرت محمد مرادعلی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   کے خلیفہ اعظم مقررہوئے۔

 حضرت محمد مظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   کےناناجان حضرت پیربخش  رحمتہ  اللہ  علیہ   ایک مشہورصوفی بزرگ تھے۔ انسانوں کےساتھ ساتھ بہت سےجنات بھی آپ کے مرید تھے۔حضرت پیربخش   رحمتہ  اللہ  علیہ   ہندوستان  کے شہرہوشیارپورسےجب آخری مرتبہ پاکستان آئے انہوں نےاپناساراعلم حضرت محمدمظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو منتقل کردیااورانہیں اس کی اجازت بھی دی۔

آپ فرماتےہیں کہ ہمیں اچھی طرح یادرکھناچاہیےکہ ہماری آپس کی کھینچاتانی اورنفرت اچھےنتیجے پیدا  نہیں کرسکتی اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہےسوائےاس کےکہ دشمن شیطان ہم پرہنسےاورخودمزا اٹھائے۔ اتفاق میں جو برکت ہےوہ نفاق میں عزت بخش نہیں ہوسکتی۔

آپ سےبےشمارکرامات ظہورپذیرہوئیں لیکن خوف طوالت یہاں صرف دوکاذکرکیاجاتاہے۔  

آپ کی ایک مریدنی مرحومہ  خدیجہ بی بی  فرماتی تھی کہ ایک دفعہ اس کی بیٹی بمعہ اپنےبچوں کےاپنےوالدین کےگھریعنی میرےگھرچک نمبر۱۹۹میں آئی ہوئی تھی۔ اس وقت اس کی بیٹی کےتین بچےتھے۔ اس کی سب سےچھوٹی بچی بیمارتھی ۔ کہتےتھےکہ اسےکسی چیزکاسایہ ہے۔ اس کی چھوٹی بیٹی اس سائےسےجانبرنہ ہوسکی اوراس کاادھرآتےہی انتقال ہوگیا۔ ابھی گھروالےاس کودفناکرواپس آئےہی تھےکہ انہوں نےدیکھاکہ اس بچی کےبھائی کےہاتھ پاؤں مڑرہےہیں اورمنہ سےجھاگ بھی نکل رہی ہے۔ اس چیزکودیکھ کر خدیجہ بی بی سخت پریشان ہوئی اوراس نےاسےاپنے پیرومرشدحضرت محمدمظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   کےپاس لےجانےکافیصلہ  کرلیا۔

چنانچہ خدیجہ بی بی مرحوم اپنےشوہرکےہمراہ بچےکولیکرصادق آبادجانےکےلئےروانہ ہوئی۔ گاؤں سےبس کااڈاتقریباً ڈیڑھ میل کےفاصلےپرتھا۔جب بس کےاڈےپرپہنچےتوانہوں نےدیکھاکہ بچہ گم سم ہے۔ اڈےکے پاس ہی فوجی چھاؤنی بھی واقع ہے۔ وہاں سےچندفوجی آئےانہوں بچےکوچارپائی پرلٹادیااورچیک کرنےکےبعدانہوں نےبتایاکہ آپ کابچہ اب اس دنیامیں نہیں ہےاس کےبعدانہوں نےبچےکی آنکھیں بندکردیں جواس وقت کھلی ہوئی تھیں۔اورکہاکہ آپ اسےواپس گھرلےجائیں۔لیکن مرحومہ نےاپنےشوہرسےکہاکہ وہ اسےضروراپنے پیرو  مرشد کےپاس  لےکےجائے گی۔ چنانچہ وہ یہ فیصلہ کرنےکہ بعدصادق آبادجانےوالی بس میں سوارہوگئے۔

ادھرحضرت محمدمظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   اپنےایک مریدسےملنےاپنی بہن کےہمراہ جوکہ آپ کی مریدنی بھی تھی،چک نمبر۱۷۳میں تشریف لےگئے۔ ابھی گھرکےاندرداخل ہی ہوئےتھےکہ اہل خانہ سےفرمایاکہ مجھےابھی واپس جاناہے کیونکہ کوئی مجھےپکاررہاہے۔ اہل خانہ نےکہاابھی تو آپ آئےہیں تھوڑی دیرتوٹھہرجائیں۔ لیکن آپ نےکہاکہ مجھے ابھی جاناہے۔اگرکسی کےپاس کوئی ٹرانسپورٹ ہوتومجھےفوراًصادق آبادپہنچایاجائے۔ چنانچہ ایک صاحب کےپاس موٹرسائیکل تھی۔ آپ نےاسی پرہی جانےکافیصلہ کرلیا۔ آپ نےاپنی بہن سےکہاکہ وہ بذریعہ بس واپس صادق آباد آجائے۔اور آپ موٹر سائیکل پر صادق آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔

جب آپ کی بہن صادق آباد واپس آنے کے لیے بس اڈےپرپہنچی اوربس میں سوارہوئی تو یہ وہی بس تھی جس میں خدیجہ بی بی اپنےشوہر اوربچےکے ہمراہ سفرکررہی تھی۔ آپ کی بہن نےخدیجہ مرحومہ سے پوچھایہ سیٹ پرکپڑےمیں کس کو لپیٹاہوا ہے تومرحومہ نےکپڑااٹھاکرآپ کی بہن کو ساراواقعہ بتادیا۔ تب آپ کی بہن نےکہاکہ شایداسی لئے  ہی حضرت محمدمظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   واپس چلے گئےہیں۔

یہ تینوں بمعہ بچےکےاکٹھےصادق آبادپہنچےاورحضرت محمدمظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   کی خدمت میں حاضرہوئے۔ مرحومہ خدیجہ بی بی کودیکھتےہی آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نےفرمایاتویہ تم تھی جومجھےپکاررہی تھی۔

مرحومہ خدیجہ بی بی نےعرض کی کہ میری بیٹی مجھ سےملنےکےلئےآئی ہےپہلےاس کی بیٹی چلی گئی اوراب بیٹا۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   اللہ تعالیٰ سےہمارےلئےکرم کی بھیک مانگیں۔ آپ نےکہاکہ اس بچےکواس چارپائی پرلٹادو۔ بچےکوچارپائی پرلٹانےکے بعدآپ گھرکی چھت پرچلےگئےاورفرمایاکہ مجھےکوئی نہ بلائےچاہےاس کام کوایک دن لگےیاچاردن لیکن   اگربچہ مجھےآواز دےتوپھرمجھےبلانا۔ یہ کہہ کرآپ مراقبےمیں چلےگئےاورباقی گھروالےنیچےبچےکےپاس آگئے۔

تقریباً بارہ گھنٹےکےبعدبچہ اٹھ کربیٹھ گیااورکہنےلگاکہ بجلی والےپیرصاحب کہاں ہیں۔اس وقت بچےنےنہ اپنے والدین اور نہ کسی اورکوپکارا۔ بچےکی عمر اس وقت سات یاآٹھ سال تھی اوروہ حضرت محمدمظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   کوبجلی والاپیرکہاکرتاتھا۔ بچےکی آوازسنتےہی سب چھت کی طرف دوڑےاوراس کی اطلاع آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   کو دی۔آپ نےفوراً ہاتھ اٹھا کراللہ تعالیٰ سےدعاکی۔ جس کےبعدآپ نیچےتشریف لےآئےاورمرحومہ خدیجہ بی بی سےکہاکہ اس بچےکے ہمراہ مزیدایک دن ہمارےپاس رہواس کےبعد اسےلےجانا۔ایک دن کےبعدوہ بچہ بالکل تندرست ہوگیااوراس کے گھر والے اسے لے گئے ماشااللہ اب وہ  بچہ جوان ہےاوراس کےبیوی بچےہیں۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ آپ کو اپنے نانا کی طرف سے تسخیر جنات کا علم بھی عطا ہوا تھا اس سے متعلق ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ایک عورت کے  اوپر جنات کا سایہ تھا اور اس کو اکثر دورے پڑتے تھے ۔ گھر والے اس کے ان دوروں سے سخت پریشان تھے۔میڈ یکل اور روحانی دونوں طرح کے علاج کروا کر دیکھ لیے تھے ۔لیکن کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ دن بدن اس کی شدت میں اضافہ ہوتا رہا۔

کافی پیروں وفقیروں(یہاں کافی پیروں وفقیروں سے مراد جھوٹے پیر فقیر ہیں) کو آزمانے کے بعد وہ لوگ  آپ کی خدمت میں حاضرہوئےاوراپنامدعابیان کیا۔ آپ نےتھوڑی سی سبز الائچیاں پڑھ کرانہیں دیں اورکہاکہ یہ الائچیاں لےجاکراس عورت کےسرہانےرکھ دیں اوراسےکہیں کہ روزانہ ایک الائچی کھالیاکرے۔اکیس دن تک یہ عمل کرے لیکن اس دوران عورت کمرے سےباہرنہ نکلے۔

ایک یادوالائچی کھانےکےبعدوہ عورت اپنےکمرےسےباہرنکل گئی اورگھروالوں کوپتہ نہ چلا۔ جب گھروالوں کوپتہ چلاتو وہ اس عورت کولےکردوبارہ کمرےمیں پہنچےتوکیادیکھتےہیں کہ وہاں الائچیاں موجودنہیں ہیں ان کی جگہ ایک رقعہ اور پیسےپڑےہوئےہیں۔ رقعہ کےاوپرلکھاہواتھاکہ ہم الائچیاں لےکرجارہےہیں اوریہ ان الائچیوں کی قیمت  ہے۔ گھر والوں نےیہ ساراواقعہ آپ کی خدمت میں گوش گزارکیا۔ آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے فوری طورپراپنےکشف سے جنات کوحاضرکیااوران کوڈانٹااورکہاکہ تم یہ الائچیاں کیوں لےکرگئےہو۔ تو جنات نےجواب دیا اے حضرت ہم یہ الائچیاں شرارتاً لےگئےتھےکیونکہ وہ عورت کمرےسےباہرچلی گئی تھی۔ اس پر حضرت محمد مظفرعلی خان عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   نے حکم دیا کہ واپس جاؤ اور وہاں واپس الائچیاں رکھ آؤ۔ جس پر جنات نے عرض کی کہ حضرت کیونکہ وہ عورت اب کمرےمیں واپس چلی گئی ہےاس لئے ہم کمرے میں داخل نہیں ہوسکتے۔ جس کےبعد آپ   رحمتہ  اللہ  علیہ   نے انہیں حکم دیا کہ گھر کی دیوارپر وہ الائچیاں رکھ آؤ۔

  جب اس عورت کے گھروالے واپس گھرپہنچے تو انہوں نےدیکھا کہ وہی الائچیاں ان کی گھر کی دیوار کہ اوپرپڑی ہوئی تھیں۔ انہوں نے وہ الائچیاں اٹھائیں اور حسب حکم حضرت محمد مظفرعلی خاں عارف  رحمتہ  اللہ  علیہ   الائچیاں اس عورت کےسرہانےکےنیچے رکھ دیں۔ تھوڑےہی دنوں بعد وہ عورت صحت یاب ہوگئی اور آپ کی کرامت کی وجہ سےاسے ان دوروں کی بھیانک بیماری سے چھٹکارا مل گیا۔

عمرکےآخری حصےمیں آپ  رحمتہ  اللہ  علیہ   پرفالج کاحملہ ہواجس سےآپ کی قوت گویائی متاثر ہوئی۔ آپ نےتقریباً تین سال اسی حالت میں گذارےپھراچانک آپ پرتیزبخارکاحملہ ہواجس کےبعدآپ کوہسپتال داخل کروادیا۔ ہسپتال میں دودن رہنےکےبعدتیسرےدن کی صبح ۱۰ستمبر ۱۹۹۴عیسوی بمطابق ۴ربیع الاثانی ۱۴۱۵ہجری بروزہفتہ آپ اس دارفانی  سے رخصت ہوگئے۔ ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔اللہ تعالیٰ آپ کو پنے جوار رحمت میں جگہ دے اور آپ کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین ۔

آپ کو صادق آباد ضلع رحیم یار خاں پاکستان میں آپ کےپیرومرشداوروالدمحترم حضرت محمدمرادعلی خاں  رحمتہ  اللہ  علیہ   کےپہلومیں سپردخاک کردیاگیا۔